نرگسیت اور عدم اعتماد: ایک جدلیاتی جائزہ (01) ۔ یونس راھو

نرگسیت ایک نفسیاتی اصطلاح ہے جو ایسے شخص کے رویے یا سوچ کو بیان کرتی ہے جو خود کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، اپنے آپ پر مرکوز رہتا ہے اور دوسروں کے جذبات یا ضروریات کا بہت کم خیال رکھتا ہے۔ یہ عمومی طور پر خود پرستی، خود اہمیت اور دوسروں کی طرف سے مسلسل توجہ یا تعریف کی خواہش سے جڑی ہوتی ہے۔

جدلیاتی مادیت کے مطابق، انسانی رویے اور نفسیاتی خصوصیات (جیسے نرگسیت) بنیادی طور پر مادی حالات اور سماجی تعلقات سے تشکیل پاتی ہیں۔ نرگسیت کو انفرادیت اور سرمایہ دارانہ معاشرے کی ثقافت سے جوڑا جا سکتا ہے، جو سرمایہ دارانہ مفادات، مسابقت اور ذاتی کامیابی پر زور دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں لوگ اکثر اپنی انفرادی کامیابیوں اور خود ستائشی سے متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں نرگسیت پسندانہ رویے فروغ پاتے ہیں۔

مثال کے طور پر:

سرمایہ دارانہ ثقافت میں میڈیا اور اشتہارات خود کی تصویر اور خود پسندی کو نمایاں کرتے ہیں۔ مسابقت، معاشی دوڑ اور سماجی درجہ بندی کی مستقل کشمکش لوگوں کو خود غرضی اور برتری کے رویے کی طرف مائل کرتی ہے۔

جدلیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نرگسیت صرف ایک انفرادی نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی رجحان ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تضادات (طبقاتی، معاشی اور قومی استحصال) سے پیدا ہوتا ہے۔

ہر شے میں تضاد موجود ہوتا ہے اور یہی تضاد ترقی کی بنیاد ہے۔ نرگسیت کے تناظر میں یہ تضاد یوں سمجھا جا سکتا ہے:

انفرادیت بمقابلہ اجتماعیت: نرگسیت پسندانہ رویہ انفرادیت کو بڑھاتا ہے، جبکہ سماجی ترقی کے لیے اجتماعی ہم آہنگی اور تعاون ضروری ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں انفرادی مفادات محنت کش طبقے کے اجتماعی مفادات کے مخالف ہو جاتے ہیں۔

جاگیرداری عہد میں: نرگسیت بادشاہ یا جاگیردار کی برتری، اپنے آپ کو اتم اعلیٰ سمجھنے کا وہم ، زمین اور کسانوں پر ملکیت کے احساس سے ظاہر ہوتی تھی۔

سرمایہ دارانہ دور میں: یہ انفرادی کامیابی، خود کو نمایاں کرنے کے کلچر، نجی ملکیت، میڈیا، سوشل میڈیا اور صارفیت کے ذریعے سامنے آتی ہے۔

ژاں پال سارتر کے وجودیت کے فلسفے میں نرگسیت کو "بد عقیدہ" (bad faith) کہا جا سکتا ہے۔ نرگسیت پسند اپنے آپ کو ایک محدود اور برتر تصور تک مقید کر لیتا ہے اور دوسروں کی آزادی کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ رویہ وجودیت کے بنیادی اصولوں یعنی آزادی اور ذمہ داری کے خلاف ہے۔

سرمایہ دارانہ ثقافت میں نرگسیت کا مخالف پہلو یہ بھی ہے کہ فرد اپنے آپ کو غیر اہم یا ناکام سمجھنے لگتا ہے۔ یہ رویہ عدم اعتماد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جو طبقاتی تفریق اور سماجی محرومی کے دباؤ سے جنم لیتا ہے۔ مقابلے کے اس نظام میں جب کامیابی کی امید نظر نہیں آتی تو لوگ خود کو ناکارہ یا بے کار سمجھنے لگتے ہیں۔

بالآخر، نرگسیت اور عدم اعتماد دونوں رویے انسان کو غیر انسانی اور کھوکھلا بنا دیتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے مخالف نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں یہ ایک ہی سماجی نظام کے مادی حالات سے پیدا ہوتے ہیں۔ جدلیاتی طور پر یہ ایک بڑے تضاد کی شکل ہیں: انفرادی قدر بمقابلہ سماجی ڈھانچہ۔ سرمایہ دارانہ نظام فرد کو انفرادی طور پر پرکھنے پر مجبور کرتا ہے، حالانکہ اس کی بنیاد سماجی و معاشی حالات میں پیوستہ ہے۔

ایک سوشلسٹ یا استحصال سے پاک معاشرہ مساوات اور اجتماعی تعاون کی بنیاد پر فرد میں نرگسیت اور عدم اعتماد کو کم کر سکتا ہے۔ ایسے نظام میں کسی شخص کی قدر اس کی ذاتی معاشی کامیابی سے نہیں بلکہ سماجی پیداوار اور تخلیقی صلاحیتوں میں اس کے کردار سے جانی جائے گی۔

طبقاتی شعور ہی وہ ذریعہ ہے جو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ نرگسیت اور عدم اعتماد ذاتی ناکامیاں نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ حالات کا نتیجہ ہیں۔ طبقاتی شعور لوگوں کو اجتماعی جدوجہد کی طرف لے جاتا ہے۔

آخر میں، عوامی ثقافتی تعلیم اور میڈیا میں تبدیلی کے ذریعے خودغرضی اور بداعتمادی کے بجائے تعاون، ہمدردی، عاجزی اور سماجی ذمہ داری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، یہ رجحانات تنظیم اور پارٹی کو اندر سے کمزور کرتے ہیں، جبکہ ان کے خلاف جدوجہد ہی پارٹی کی طاقت اور اتحاد کو مضبوط بناتی ہے.

سندھی میں پڑھنےکے لیے کلک کریں۔

Previous Post Next Post